- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
سانحہ اے پی ایس، ہم کبھی نہیں بھولیں گے!
اسکول کی گھنٹی جیسے ہی بجی، تمام بچے اسمبلی ہال میں آکر کھڑے ہوگئے۔ دعا کے بعد تمام بچوں نے بہ آوازِ بلند قومی ترانہ پڑھا اور پھر اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ ابھی کلاسز میں پڑھائی کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اچانک پورا اسکول فائرنگ سے گونج اٹھا…
16 دسمبر 2014 کا دن پوری قوم کےلیے تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جسے قوم کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ سفاک دہشت گرد صبح 11 بجے اسکول میں داخل ہوئے اور معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور بچوں کو چن چن کر قتل کیا۔ سیکیورٹی فورسز کے اسکول پہنچنے تک دہشت گرد خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کچھ ہی دیر میں ان ظالموں نے 132 معصوم جانوں سمیت 141 افراد کو شہید کردیا۔
واقعے میں زخمی ہونے والا ایک اور 16 سالہ بچہ شاہ رخ خان بھی ہے جو موت کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ شاہ رخ نے بتایا: ’’میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں کیریئر کونسلنگ سیشن میں موجود تھا کہ اچانک 4 مسلح افراد پیرا ملٹری یونیفارم پہنے اندر داخل ہوئے اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ ایک دہشت گرد چلایا کہ دیکھو ڈیسک کے نیچے بہت سے بچے چھپے ہوئے ہیں ان کو نکالو اور مارو۔ اس کے بعد بچوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں اور میں سمجھ گیا کہ دہشت گردوں نے بچوں کو مارنا شروع کردیا ہے۔ دہشت گردوں نے میری ٹانگ میں 2 گولیاں ماریں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ موت میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں نے فوری فیصلہ کیا کہ مرنے کی اداکاری کرتا ہوں اس طرح شاید بچ جاؤں۔ میں نے اپنی ٹائی کھولی اور اپنے منہ پر باندھ لی تاکہ میرے کراہنے کی آواز نہ نکل سکے۔‘‘
شاہ رخ خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس دوران ’’میں نے دیکھا کہ دہشت گرد شہید ہوجانے والے بچوں کی موت کا یقین کرنے کےلیے ان کے جسموں میں گولیاں ماررہے تھے۔ ایک دہشت گرد کو میں نے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو میں نے آنکھیں بند کرلیں جب کہ میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ موت میرے سر پر پہنچ چکی ہے۔ خوش قسمتی سے وہ دہشت گرد کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور ہال سے باہر چلا گیا جب کہ میں کچھ دیر اسی حالت میں زمین پر لیٹا رہا۔ چند لمحوں بعد میں نے اٹھنے کی کوشش لیکن شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زمین پر گرگیا اور بے ہوش ہوگیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں موجود تھا۔‘‘
ایک طرف جہاں ملک بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی جارہی ہیں وہیں، سانحے کے ننھے شہیدوں کے والدین اپنے بچوں کی آخری نشانیوں کو تھامے اپنے گھروں میں ہیں، مٹی میں اٹے اسکول کے بستے، کھلونے اور ان کی چیزیں واپس نکال لی گئیں ہیں، ماں باپ پھر سے ان چیزوں کو دیکھ کر ان ننھی جانوں کو یاد کررہے ہیں جو ان سے چھین لی گئیں، والدین کا کہنا ہے کہ یہ چیزیں ان کے اس برے خواب کی یادگار ہیں جس میں وہ جی رہے ہیں۔
بہر حال، آرمی پبلک اسکول، جہاں خونریزی ہوئی، آہستہ آہستہ اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے، اساتذہ اور دیگر عملہ جو حملے میں محفوظ رہا وہ جسمانی اور ذہنی تکالیف سے باہر نکل کر کلاسز کی جانب واپس آگئے۔
Comments
Post a Comment